top of page
Search

جمیل مظہری کا ناول ”شکست و فتح“

جمیل مظہری شاعر تو تھے ہی،اور اگر کوئی اس فریب پیہم میں مبتلا نہ ہو تو دم نکل جائے آدمی کا کہ اب سے سو سال پہلے اردو کے ایک بڑے، متقدر شاعر جمیل مظہری نے اس زمانے میں جب پریم چند کا چراغ جلتا تھا، اور جب بڑے ناولوں کی آمد آمد عام نہ تھی، نہ جمیل مظہری کے نام نے اردو میں ایک نیا سنگ میل بڑی مضبوطی سے جما دیا تھا۔ ایک بار تو ناول کا نام ”فرض کی قربان گاہ پر“ پر رکھا، اور دوسری بار ”شکست و فتح“۔ خدا بخش نے جمیل مظہری کا ناول شائع کیا ہے تو اس کے دونوں عنوان برقرار رکھ کر شائع کیا ہے۔

فلسفی تو کچھ کچھ تھے وہ، (بعضوں کے خیال میں اچھے خاصے)۔ بلکہ ایک فلسفیانہ نظم تو میاں میم کے نام سے بھی شائع ہوئی تھی، (اور وہ بڑی عظیم نظموں میں شروع شمار ہوتی ہے)، ایک اور نظم سنا ہے ی خ کو بھی عنایت کی تھی، طویل نظم۔ پتہ نہیں کیا ہوا، غرض کہنے کی یہ ہے کہ وہ فلسفی شاعر تھے۔ فلسفیانہ شاعری بھی کی ہے۔ مگر شاعری سے قطع نظر بات ان کے ناول کی ہے، جو جذبہ محبت کا وہ فلسفیانہ ٹریٹمنٹ جو اس ناول میں نظر آتا ہے، اور جس سے اس جذبے میں لپٹے ہوئے سارے اسرار و رموز قاری پر آہستہ آہستہ کھلتے جاتے ہیں، اس دلآویزی کے ساتھ اس خوبصورت تجزیہ کے ساتھ اور اس تفصیل سے کسی اور ناول میں نہیں ملتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ قصے کی دلچسپی کسی جگہ جمیل صاحب نے کم نہیں ہونے دی ہے۔ یاد آیا کہ وہ کشمکش جو اس ناول کی شاہ کلید ہے، جمیل مظہری کے چالیس سال بعد ایک بار اردو ناول کو اور نصیب ہوگئی جب” بہت دیر کردی“نام کا ناول شائع ہوا، شاید اس ناول پر ایک فلم بھی بننا شروع ہوگئی تھی (پھر کیا ہوا پتہ نہیں)۔ لیکن جمیل مظہری کا چالیس سال پہلے کا تجربہ بہر صورت اولیت کا سہرا تو اسی پر بنتا ہے، ناول تو ہم کہتے رہے ہیں، لیکن حقیقت میں اسے ناولٹ کہنا چاہیے کہ اس کا کینواس ناول بننے کے لئے وسیع تر ہونا تھا۔ جو کیوں ہوتا کہ پیمانہ تو اتنا ہی رکھنا تھا۔ (ڈائریکٹر)


112 views0 comments
bottom of page