top of page
Search

خدا بخش لائبریری نے شاد عظیم آبادی کو یاد کیا

Updated: Jan 7, 2021

اردو کے مشہور غزل گو شاعر شاد عظیم آبادی کی یوم وفات(۷ جنوری)کی مناسبت سے خدا بخش لائبریری میں ایک ویب لکچر کا انعقاد کیا گیا۔ اس سلسلہ میں جناب اکبر رضا جمشید نے شادعظیم آبادی کی شخصیت اور انکے پیغام پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر شائستہ بیدار، ڈائریکٹر خدا بخش لائبریری نے فرمایا کہ لائبریری میں ہمیشہ علم و ادب کے فروغ کے لئے کوشاں رہی ہے۔آج بھی ویب لکچر کے ذریعہ شاد عظیم آبادی کو یاد کیا جا رہاہے۔شاد ایک بڑے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک قوم پرست عالم اور مورخ بھی تھے۔ان کے بعض اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔اس موقعہ پر لائبریری سے شائع شدہ کتاب”ہندو دھرم بہار میں: نقش پائیدار کا ایک باب از شاد عظیم آبادی کا اجراجمشید صاحب نے فرمایا۔لائبریری اس سے قبل بھی شاد عظیم آبادی پر متعددکتابین شائع کر چکی ہے۔ان میں ”کلام شاد“ ”شاد عظیم آبادی چند مطالعے“ اور ”کچھ شاد عظیم آبادی کے بارے میں“ قابل ذکر ہیں۔

جمشید صاحب نے اپنے لکچر میں فرمایا کہ شاد عظیم آبادی اردو کے بڑے شاعر تھے۔اپنے بارے میں شاد نے کہا تھا کہ ڈھونڈھوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم“واقعی وہ گراں قدر شخصیت کے مالک تھے۔کم عمری ہی میں شعرکہنا شروع کر دیا تھا۔مثنوی، قصیدہ،مسدس اور ہجو لکھی لیکن ان کی شہرت ایک غزل گو کی حیثیت سے ہوئی۔شاعری کی زبان سادہ مگر معنی خیز ہے۔نمونہ کے طور انہوں نے چند اشعار پیش کئے۔

انہوں نے کہا کہ شاد سرسید کی تحریک سے بہت متاثر تھے۔انہوں نے سر سید کی حمایت میں ایک مسدس بھی لکھی تھی۔وہ ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار اور وطن پرست انسان تھے۔ہندو مسلمان کو مادر وطن کا فرزند سمجھتے تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے کو شاں رہتے۔اس سلسلہ میں انہوں نے نوید ہند لکھی جسے ملکہ وکٹٹوریہ کے نام منسوب کیا تھا۔ان کی حب الوطنی پر کم روشنی ڈالی گئی ہے۔ضرورت ہے کہ اس کا بھر پور جائزہ لیا جائے۔آج کا دور بھی پر انتشار دور ہے۔لوگوں کی سوچ محدود ہو گئی ہے۔دور اندیشی سے کام نہیں لیا گیا تو خطرہ ہے کہ کہیں آتش گل چمن کو جلا نہ دے۔

پروگرام کے آخر میں ڈائریکٹر صاحبہ نے مقرر اکبر رضا جمشید صاحب او ر ویب لکچر سے جڑے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔

شاد عظیم آبادی کی کتاب نقشِ پایدار کا ایک باب ’’ہندو دھرم بہار میں‘‘ فلپ پی ڈی ایف کی شکل میں نیچے دیا جا رہا ہے:


190 views0 comments
bottom of page